معبد الاقصر

اس خوبصورت ڈرون ویڈیو میں مصر کے کئی اہم آثار قدیمہ اڑتے اڑتے دکھائے گئے ہیں۔ جن میں مصر کا دوسرا بڑا ہرم (خفرع) اور .الاقصر کا معبد خانہ قابل ذکر ہیں۔ معبد الاقصر کے بارے میں کچھ معلومات یہاں پیش خدمت ہیں

معبدالاقصر (عربی) جسے معبد اقصر (فارسی) لُکسر ٹمپل (انگریزی) لکسر کی عبادت گاہ بھی کہا جاتا ہے، ایک عظیم الشان کمپلیکس تھا جو دریائے نیل کے مشرقی کنارے پر واقع قدیم شہر تھیبس یا طِیبہ (Thebes)یا موجودہ الاقصر میں تعمیر کیا گیا۔ یہ1400 قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا اور اس کے دوسرے سرے پر ایک اور عظیم الشان معبد ہے جو کرنک کا معبد کہلاتا ہے۔ یہ معبد کسی ایک خدا کی عبادت کے لئے تعمیر نہیں کیا گیا تھا بلکہ فراعین کی بادشاہت کے جشن اور تھیبس کے تین اہم خداؤں کے سالانہ جشن کے لئے مختص تھا۔

Row of ancient sphinxes at Luxor temple in Egypt
معبد کو جانے والا ابو الہول کا راستہ

معبد تک جانے کے لئے ایک لمبا راستہ ہے جس کی دونوں جانب سفنکس یا ابولھول کے مجسمے ہیں اور معبد کے داخلی دروازے سے پہلے دو عظیم اوبلیسک (obelisk) یا پتھر کے ستون نصب کئے گئے تھے جو تقریباً 23 میٹر بلند ہیں اور سرخ گرینائٹ کے ایک ہی ٹکڑے سے بنائے گئے تھے۔ ان میں سے ایک ستون 1830ء میں پیرس لے جایا گیا اور وہاں ایک چوک میں نسب ہے۔ یہ ستون رعمسیس دوم (رمسیس ثانی یا رعمسیسِ اعظم) کے زمانے (1304 ق۔م) میں تعمیر کئے گئے تھے۔

Entrance to Luxor Temple at sunset, a large Ancient Egyptian temple complex located on the east bank of the Nile River in the city today known as Luxor (Thebes). Was consecrated to the god Amon-Ra
معبد کا دروازہ اور اوبلیسک

عظیم الشان ستونوں سے مزیّن راہداریاں پہلے دور میں تعمیر کیے گئے تھے اور اس کے بعد مزید ہال جن کے ستونوں پر قدیم مصری ہیرو گلف زبان مین فراعین اور خداؤں کی حقیقی اور تصوراتی داستانیں رقم ہیں۔ یہ ہال اپنے عروج کے دور میں کئی فراعین کی تاجپوشی اور مذہبی جشن کی تقریبات کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

Columns and statues of the Luxor temple main entrance, first pylon, Egypt
ستونوں سے مزین راہداریاں

یونان کے سکندر اعظم نے 332 ق۔م میں مصر کو فتح کیا اور الاقصر میں مصری دیوتاؤں کے ساتھ یونانی دیوتاؤں کا مندر بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم کی فرعونِ مصر کے طور پر تاجپوشی بھی الاقصر کے معبد میں ہوئی تھی۔ یونانیوں کے بعد رومی مصر میں قابض ہوئے اور یہ معبد ان کے خداؤں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ اور دیگر شعبوں کا مرکز بنا۔ عیسائیت کی ابتدائی زمانے میں یہاں ایک رومی کلیسا بنایا گیا، جو بعد ازاں مصر میں قبطی عیسائیوں کے استعمال میں رہا۔ 640 ع میں فتح مصر کے بعد یہ کلیسا مسجد بن گیا ۔ قرون وسطیٰ (ایوبی دور) میں قائم ہوئی ایک مسجد “مسجد أبو الحجاج” اب بھی قدیم معبد کے احاطہ کے اندر موجود ہے اور آج بھی عبادت گاہ کے طور پر زیر استعمال ہے۔

مسجد ابو الحجاج (ویکیپیڈیا)

ایک لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو الاقصر کی عظیم الشان عبادت گاہ میں تقریباً پچھلے 3400 سال سے مسلسل کسی نہ کسی شکل میں، کسی نہ کسی خدا کی عبادت جاری ہے۔

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *