نفرتیتی (1370 سے 1330 ق۔م) قدیم مصر کے 18ویں شاہی خاندان کے فرعون آخناتُون (جو امِن حوتپ کے نام سے تختنشین ہوا) کی ملکہ تھی۔ اس کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں، لیکن گمان کیا جاتا ہے کہ ملکہ نفرتیتی فرعونِ مصر کی موت کے بعد قلیل مدت کے لیے تخت نشین بھی رہی۔
موجودہ دور میں نفرتیتی کی مقبولیت کا سہرہ اس کے اوپری جسم کے ایک مجسمے کو جاتا ہے۔ جو قدیم مصر کے ایک ماہر مجسمہ ساز کی ورکشاپ میں نامکمل لیکن اچھی حالت میں دریافت ہوا تھا۔ یہ مجسمہ سب سے زیادہ نقل ہونے والے مصری نوادرات میں شامل ہے۔ اس کی اصل برلِن کے میوزیم میں موجود ہے۔
نفرتیتی اور اس کے شوہر آخناتون (آخِن آتُون) نے پہلی بار قدیم مصر میں ایک خدا (آتون یعنی خداوند شمس) کی پرستش شروع کی۔ یہ واقعہ قدیم مصری تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے پہلے ایک خداوند کا تصور قدیم مصری تہذیب میں نہیں ملتا۔ آتون پرستی کا یہ ایک خدا کو ماننے والا مذہب تقریباَ 20 سال جاری رہا اور اس دوران مصر کا دارالحکومت تھیبَس یا طِیبہ سے بدل کر نئے شہر امَرنہ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ آخناتون کی موت کے بعد اس کے جانشین اور مشہور فرعونِ مصر توت عنخ آمون نے پھر سے پرانے خداؤں کی پرستش بحال کی اور آخناتون کا نام فراعین مصر کی فہرست سے ہی ہٹا دیا۔
قدیم مصری علوم کے کچھ ماہرین کے مطابق آتون دراصل بنی اسرائیل کے خدائے واحد کا مصری نام ہے اور بعد ازاں حضرت موسیٰ ایک خدا کی عبادت کی تبلیغ کے باعث بنی اسرائیل سمیت مصر چھوڑنے پر مجبور کیے گئے۔ اس قیاس کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے کیونکہ تورات، انجیل اور قرآن میں کئی مختلف فرعونوں کا ذکر بغیر نام کے موجود ہے
موجودہ درُوز مذہب کے ماننے والے یا مواحدون (ایک عربی شامی علاقائی مذہبی گروہ) بھی آخناتون کو پہلا سچا موحّد مانتے ہیں۔
Be First to Comment